١٤ سالہ طالبہ نے کوروانا کا ممکنہ علاج دریافت کرلیا

دنیا بھر کے ماہر سائنسدان کورونا وائرس کووڈ 19 کا موثر علاج دریافت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں مگر ایک اسکول کی طالبہ نے محسوس ہوتا ہے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

Covid Treatment proposed by Aneeka

١٤ سالہ طالبہ نے کوروانا کا ممکنہ علاج دریافت کرلیا
دنیا بھر کے ماہر سائنسدان کورونا وائرس کووڈ 19 کا موثر علاج دریافت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں مگر ایک اسکول کی طالبہ نے محسوس ہوتا ہے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ طالبہ انیکا شیرابورلو نے 3 ایم ینگ سائنٹیسٹ چیلنج کے ساتھ ساتھ 25 ہزار ڈالرز کاا انعام بھی جیتا۔

انہیں یہ اعزاز کورونا کووڈ 19 کے ایک ممکنہ علاج کی دریافت پر دیا گیا۔

انہیں یہ کامیابی ایک ایسے مالیکیول کی دریافت میں ملی جو کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو جکڑ لیتا ہے۔

اس طالبہ نے سی این این کو بتایا کہ ‘گزشتہ 2 دنوں کے دوران میں نے اپنے پراجیکٹ کے حوالے سے بہت زیادہ میڈیا کوریج دیکھی ہے جو کہ کورونا وائرس کے گرد گھومتا ہے اور اس کے اختتام کے لیے ہماری امید کی عکاسی کرتا ہے، ہر ایک کی طرح میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ معمول کی زندگی جلدازجلد لوٹ آئے’۔

انیکا نے اپنا پراجیکٹ اس وقت بھی جمع کروایا تھا جب وہ 8 ویں جماعت میں تھی مگر اس وقت طالبہ کا مقصد کووڈ 19 کا علاج دریافت کرنا نہیں تھا۔

ابتدا میں وہ اس طریقہ کار سے ایک ایسے مرکب کی شناخت کرنا چاہتی تھی جو انفلوائنزا وائرس کو جکڑنے اور مارنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

طالبہ نے بتایا ‘وبائی امراض، وائرسز اور ادویات کی دریاافت پر بہت زیادہ تحقیق کرنے کے بعد یہ سوچنا حیران کن لگ رہا تھا کہ میں حقیقت میں ایسی ہی صورتحال میں رہ رہی ہوں’۔

انیکا نے کہا ‘بہت مختصر وقت میں کووڈ 19 کی وبا کے پھیلاؤ اور دنیا پر اس کے اثرات کو دیکھنے کے بعد ، میں نے اپنے بڑوں کی مدد سے انفلوائنزا کی بجائے سارس کوو 2 وائرس کو ہدف بنایا’۔

طالبہ کا کہنا تھا کہ 1918 کی فلو وبا کے حوالے سے وائرسز کے امکانی علاج کی دریافت نے انہیں متاثر کیا ہے اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ صرف امریکا میں ہی ہر سال متعدد افراد فلو سے مر جاتے ہیں حالانکہ اس کے خلاف ہر سال ویکسینیشن ہوتی ہے اور ادویات بھی عام با آسانی دستیاب ہیں۔

3 ایم ینگ سائنٹیسٹ چیلنج کی جج ڈاکٹر سینڈی موس نے بتایا ‘انیکا نے اپنے تجسس اور ذہن کو استعمال کیا ہے اور اس کا کام منظم ہے جس میں بہت زیادہ ڈیٹابیس کا تجزیہ کیا گیا، یہ طالبہ اپنا وقت اور صلاحیت دونو کا استمعال دنیا کو بہتر مقام بنانے کے لیے کرنا چاہتی ہے تاکہ ہم سب کو امید حاصل ہوسکے’۔

انیکا کا کہنا تھا کہ انعام کو جیتنا اور ٹاپ ینگ سائنسدان کا خطاب صرف ایک اعزاز ہے مگر اس کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔

طالبہ کے مطابق اس کا اگلا مقصد سائنسدانوں اور محققین کے ساتھ مل کر اپنے دریافت کردہ طریقہ کو ایک حقیقی علاج کی شکل دے کر وبا کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنا ہے۔