ابو ریحان محمّد بن احمد البیرونی سے متعلق چند حقائق جن سے آپ بے خبر تھے

ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی مسلم دنیا کے ایک فلسفی، مفکر، ماہر طبیعات ،ماہر معدنیات ماہر بشریات اور سائنسدان ہیں لیکن آپ کی اصل پہچان ریاضی جیومیٹری اور فلکیات یعنی ایسٹرونومی ہے

Alberuni

البیرونی کریٹر

اگر آپ کے پاس ایک اچھی سی ٹیلی سکوپ موجود ہے تو پورے چاند کی کسی رات اس کو چاند کے رخ پر موڑ دیجئے اور غور کیجئے اب اگر آپ اس کے کوآرڈینیٹس 17.9 ڈگری عرض بلد اور 92.5 ڈگری یعنی طول بلد کر دیں تو چاند کا جو حصہ آپ کے سامنے ہو گا اس کو البیرونی کریٹر کہا جاتا ہے چاند کا یہ گوشہ دسویں صدی کے عظیم مسلمان سائنسدان ریاضی دان اور فلسفی ابو ریحان البیرونی کے نام سے منسوب ہے البیرونی کون تھے اور آخر کیوں ان کی وفات سے تقریبا ایک ہزار سال پہلے چاند کے ایک حصے کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے

ابتدائی زندگی

ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی مسلم دنیا کے ایک فلسفی، مفکر، ماہر طبیعات ،ماہر معدنیات ماہر بشریات اور سائنسدان ہیں لیکن آپ کی اصل پہچان ریاضی جیومیٹری اور فلکیات یعنی ایسٹرونومی ہے ان مضامین میں ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے ان کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں میں شمار کیا جاتا ہے آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے وقت سے اتنا آگے تھے کہ آپ کے بہت سے دریافت کیے ہوئے عوامل آپ کے ہم عصر سائنس دانوں کے لیے ناقابل فہم تھے. البیرونی کی پیدایش 935 عیسوی میں خوارزم کے شہر قاس میں ہوئی. آج کل یہ علاقہ ازبکستان میں شامل ہے.بچپن سے ہی آپ ایک متجسسس اور باریک بین ذہن ک مالک تھے اور مظاہر فطرت کا بغور مطالعہ کرتے رہتے تھے آپ کے لیے ہر شے اپنے اندر ہیرت اور عجایب کا ایک جہاں لیے ہوے تھی اسی لیے اپ کے قلم نے جن موضوعات کا احاطہ کیا ان کا دائرہ کار ایک افق سے دوسرے افق تک وسیع ہے جس دور میں آپ پیدا ہے اس میں مرکزی خلافت دم توڑ چکی تھی اور اسلامی دنیا چوٹی بری ریاستوں اور سلطنتوں میں تقسیم تھی سیاسی اعتبار سے یہ ایک انتشار کا زمانہ تھا البتہ علم و دانش کی جستجو کا جو بیج عباسی دور میں لگایا گیا تھا اس فصل پر پھل لگنے کا سلسلہ شرو ہو چکا تھا البیرونی جس دور میں پیدا ہے اس دور میں مسلمان سائنس دان اور مفکرین دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکے تھے اس وقت مسلم دنیا کے کتب خانوں میں بیشتر یونانی کتب کا ترجمہ ہو چکا تھا اور یہ عام عوام لیے میسّر تھیں اور ان میں موضوعات کی کوئی قید نہیں تھی مزید یہ کہ اس زمانے تک کاغذ با آسانی دستیاب تھا جس سے کتابیں لکھنے کا مشکت طلب کام کافی آسان ہو چکا تھا اس علم دوست ماحول میں البیرونی کو شروع ہی میں ایک نہایت قا بل یونانی استاد مل گے جن سے انہو نے یونانی زبان سیکھی اس سے آ پ عظیم یونانی مفکرین جیسا کے اراسطو سقراط فیساغوروس جالینوس اقلیدس بطلیموس اور ارشمیدس وغیرہ کی کتا بوں کا اصل حالت میں مطالعہ کرنے کے قابل ہو گے ترجمے کی بجائے اصل ماخذ کو پڑھنے سے آپ کے مطالعہ کو بہت جلد عملی جلا ملی یوں تو آپ وقت کے مطابق علم کی کوئی ایسی شا خ نہیں تھی جس میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں لیکن جن مضامین سے آپ شروع دن سے منسلک ہوئے اور تمام عمر آپ کی خصوصی دلچسپی کا مرکز رہیں وہ موضوعات ریاضی جیومیٹری فلکیات اور فلسفہ ہے اس کے علاوہ دینی علوم جیسے فقہ اور الہیات میں بھی عبور رکھتے تھے ویسے بھی اس دور میں علمی حلقوں میں دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم ویسی نہیں تھی جیسی آج سمجھی جاتی ہے کسی بھی علمی تحقیق کے لیے کسی مضبوط ادارے یا شخصیت کی سرپرستی ایک بنیادی ضرورت ہے البیرونی کے دور میں مسلمانوں کی علم دوستی کا یہ عالم تھا کہ وہ نہ صرف شاہی دربار بلکہ عام سردار و عمرہ کے ہاں علماء اور دانشوروں کی رفاقت ایک طرح کا رواج بن چکی تھی بڑے بڑے سردار اپنی مجالس اور درباروں میں اہل دانش کومدعو کرتے اور ان کی موجودگی کو باعثِ افتخار سمجھتے خوش قسمتی سے البیرونی کی خوارزمی شہزادے ابو منصور کی شکل میں ایک صاحب علم ہستی کی سرپرستی مل گئی وہ خود بھی ایک قابل ریاضی دان اور ماہر فلکیات تھے ابو منصور نے ہی البیرونی کو اقلیدس کی جیومیٹری اور بطلیموس کی فلکیات سے متعارف کروایا سترہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ ایک ماہر ریاضی دان کے طور پر اپنا نام بنا چکے تھے لیکن آپ کی شہرت ا بھی خوارزم تک ہی محدود تھی لگ بھگ پچیس سال تک آپ خوارزم ہی میں مقامی حکمرانوں کے زیر سایہ کام کرتے رہے لیکن اپنے علم میں اضافے کے لیے وہ کسی بڑے علمی مرکز تک سفر کے متمنی تھے ان کے اس فیصلے نے مقامی خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کیا اور آپ سامانی سلطنت کے بجائے بخارا چلے گے

ابن سینا سے ملاقات

کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد آپ بحیرہ کیسپیئن کے کنارے بورگان نامی علاقے میں امیر قابوس کے پاس گئے اور اپنے علمی تحقیقی کام کو جاری رکھا یہاں آپ کی ملاقات ایک عظیم علمی شخصیت ابن سینا سے ہوئی جو علمی قد کاٹھ میں البیرونی کے ہم پلہ تھے اگرچہ یہ دونوں شخصیات رہتی دنیا تک اپنی علمی خدمات کے باعث زندہ جاوید رہیں مگر ان کا تبادلہ خیال اختلاف رائے نظریاتی اختلاف اور علم و دانش کی چاشنی سے بھرپور رہا ابن سینہ سے ملاقات کے بعد البیرونی نے ان سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رکھا اور اس نے ابن سینا کے سامنے مختلف خطوط میں 18 سوالات پیش کیے پھر ان کے جوابات پر بھی دونوں میں عمدہ قسم کی علمی بحث اور مکالمہ جاری رھا ان آٹھ سوالات میں دس کا تعلق ارسطو کے فلسفہ کائنات اور اجرام فلکی سے تھا باقی آٹھ کا تعلق سائنس اور فزکس کے عمومی موضوعات سے تھا جس میں پانی روشنی اور حرارت کے بہاؤ کے متعلق سوالات موجود تھے یہ خط و کتابت آج بھی مقالمہ کے طور پر موجود ہے اور اس میں وہی گہرائی اور روانی ملتی ہے جو ایک ہزار سال بعد آج کے دور کے سائنسی مباحثوں کا خاصا سمجھی جاتی ہے 994 عیسوی میں مشہور مسلم ماہر فلکیات الخجندی نے سورج کے مشاہدے سے رے شہر کے عرض بلد معلوم کئے البیرونی نے الخجندی کے مشاہدات اور حساب کو غلط ثابت کیا ا اور اس میں موجود کمزوریوں کی درست نشاندہی کی اس سے بطور ماہر فلکیات البیرونی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی

سلطان محمود غزنوی نے ابن سینا اور البیرونی کو اپنے ساتھ غزنی لے جانے کا فیصلہ کیا

اس مقام پر اس کہانی کے ایک اور کردار کو متعارف کروانا بہت ضروری ہو جاتا ہے اور وہ ہے سلطان محمود غزنوی جس دور میں ابن سینا اور البیرونی علم کے میدان میں روشنی کے چراغ جلا رہے تھے محمود غزنوی ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا تھا سلطان محمود غزنوی نے ایک روایتی جنگجو سے بڑھ کر ایک عظیم سلطنت قائم کرنے کا خواب دیکھا اور اس نے غزنی کو اپنے دارالسلطنت کے طور پر منتخب کیا اور جیسا کہ اس زمانے کے بادشاہوں کا وطیرہ تھا محمود کو اپنے دربار کے لئے اہل علم و دانش کی ضرورت تھی سامانی سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے ابن سینا اور البیرونی کو ان کی مرضی کے برخلاف اپنے ساتھ غزنی لے جانے کا فیصلہ کیا ایسے میں ابن سینا نے وہاں سے فرار ہو کر اپنی جان بچا لی مگر البیرونی سلطان محمود کی گرفت میں آ گئے اور وہ ا نہیں اپنے ساتھ اپنے دربار غزنی میں لے آیا جہاں 1030 عیسوی میں سلطان کی وفات تک یہ سلطان کے ساتھ ہی رہے محمود غزنوی کے دربار میں اگرچہ البیرونی معزین میں شامل تھے لیکن اس کے باوجود آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں تھی تو اس تمام عرصے میں البیرونی اپنے علم و تحقیق کے کام سے منسلک رہے لیکن سلطان کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ ایک تناؤ کا شکار رہا دلچسپ بات یہ ہے کہ سلطان کی وفات کے بعد جب اس کا بیٹا مسعود تخت پر فائز ہوا تو اس نے البیرونی کو مکمل آزادی دی مگر اس کے باوجود البیرونی نے اپنے وطن واپس لوٹنے کی کوشش نہیں کی اور نہ صرف باقی زندگی وہیں پر گزار دی بلکہ سلطان مسعود غزنوی کے ساتھ اظہار عقیدت کے طور پر اپنی کتاب القانون کو سلطان کے نام سے منسوب کیا علم فلکیات کی یہ عظیم کتاب آج بھی قانون المسعودی کے نام سے جانی جاتی ہے البیرونی نے ریاضی جیومٹری فلکیات طب معدنیات فلسفہ اور بشریات جیسے علوم میں اپنی چھاپ چھوڑ ی ہے

اسلامی دنیا کا خالص ترین مفکر

آپ اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی فارسی ابرانی یونانی اور سنسکرت زبان کے ماہر تھے آپ سے تقریبا ایک سو چالیس کتب منسوب ہیں جن میں نصف سے زیادہ کا تعلق ریاضی اور ایسٹرونومی سے ہے البیرونی کو اسلامی دنیا کا خالص ترین مفکر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جہاں انہوں نے بہت سے انوکھے اور نئے موضوعات پر تحقیق کی وہیں انہوں نے صدیوں سے مروجہ نظریات پر شک کی انگلی بھی اٹھائی اور نہ صرف ان کے نقایس واضح کئے بلکہ ان کو ایک نئے اور اچھوتے انداز سے پیش کیا آثار الباقیہ ان کی اولین اور اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے اس پوری کتاب کا مقصد وقت کوناپنے کا ایک ٹھوس طریقہ دریافت کرنا تھا آپ نے یہ کتاب ستایس سال کی عمر میں لکھنا شروع کی اور اپنی زندگی کے اگلے 35 سال اس پر کام کرتے رہے اس مد میں آپ نے ناصرف اپنے دور کی مختلف تہذیبوں کا تذکرہ کیا بلکہ ان تہذیبوں کا بھی ذکر کیا جو دنیا سے مٹ چکی تھیں اس کتاب میں اہل فارس اہل زر تشت بدھ مت کے پیروکار وسطی ایشیا کے باسی یہودی عیسائی اور مسلم دنیا کے کیلنڈر زیر بحث آئے یوں آثارالباقیہ اپنے اصل میں اس وقت کی دنیا کی ایک سائنٹیفیک تاریخ ہونے کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی دلائل پر مبنی ایک جامع کتاب تھی البیرونی کے تمام علمی کارناموں کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے اور صرف کتاب الہند ہی کی بات کی جائے تو یہ کتاب الگ سے اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے اگر خالص علمی اعتبار جائے تو بھی کتاب ال ہند بہت سارے زاویوں سے منفرد اور لافانی انسائیکلوپیڈیا ہے یہ البیرونی کے وقت کے ہندوستان کے متعلق مفصل کتاب ہے جس میں ہندو تہذیب نظریات رہن سہن عقائد اور فلسفے کا تذکرہ ہے کتاب الہند کسی بھی کلچر کے متعلق مکمل طور پر مختلف کلچر اور پس منظر رکھنے والی آنکھ آنکھ سے دیکھی جانے والی پہلی کتاب ہے انتھروپولوجی ماہرین کے مطابق کتاب الہند کو انتھروپولوجی کی پہلی کتاب کہا جا سکتا ہے اس وقت تک مسلمانوں کے ہاں ہندو صرف بت پرست اور مشرق قوم کے طور پر جانے جاتے تھے اور وہ ہندو تہذیب اور اس کی روایات سے یکسر نا آشنا تھے سلطان محمود غزنوی کی ہندوستان پر مہم جوئی کے باعث البیرونی کا ہندو سکالرز سے رابطہ ممکن ہو سکا آپ نے ان سے سنسکرت زبان سیکھی اور ان کی تہذیب کے ارتقائی عمل کو بغور مشاہدے مطالعہ اور رابطے سے پہچانا اگرچہ بیرونی خود ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے مگر ان کی غیر جانبدارانہ تحقیق نے ان پر واضح کیا کہ ہندو ہندومت محض بت پرستی کا نام نہیں بلکہ ان کے ہاں ایک مکمل نظام زیر عمل ہے جس کی گہرائی میں ان کا اپنا فلسفہ حیات ہے یہ کتاب اسی ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں ہندوؤں کے خدا ، زندگی موت جنت اور جہنم کے متعلق نظریات کے ذکر کے بعد ان کے ہاں فلسفہ طب ریاضی ایسٹرونومی اور وقت کی پیمائش کا تذکرہ ہے یہاں کچھ اہم مشاہدوں کا ذکر کرنا بہت ہے پہلا یہ کہ تاریخ میں کسی فاتح قوم کی طرف سے کسی مفتوح قوم کے لئے لیے اس طرح کی جامع کتاب لکھنے کی مثال ہمیں اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی یو ں البیرونی کی یہ کاوش مسلمانوں کے لیے ہندوستان کے نا آشنا کلچر کو سمجھنے کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی اور اس سے دونوں مذاہب کے مفکرین کو عدم برداشت سے بالاتر ہوکر آپس میں علمی تبادلہ خیال کا موقع ملا نہ صرف یہ بلکہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب انگریزوں نے برصغیر کا رخ کیا تو انہوں نے یہاں کے کلچر سے آشنائی پیدا کرنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ دوسری بات کتاب الہند میں البیرونی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ قدیم ہندوستان اور قدیم یونان کے فلا سفہ اور علماء کے درمیان بہت سی اقدار نظریات مشترک تھے یہاں تک کہ یہ دونوں کلچر ایک ہی درخت کی دو شاخیں معلوم ہوتے تھے مگر کیا وجہ تھی کہ یونانی تو علم و دانش کی منزلوں میں بہت آگے نکل گئے مگر ہندوستانی علماء کسی نقطہ کمال تک نہیں پہنچ سکے البیرونی نے ہندوؤں کی زبان سنسکرت کو مورد الزام ٹھہرایا ان کے مطابق سنسکرت ایک غیر سائنسی زبان تھی جس میں محاورات اور تشبیہات اس درجے میں شامل تھیں کہ کسی ایک شے کی تعریف و تفصیل ٹھوس طریقہ پر کرنا بہت مشکل تھا تیسری بات عمومی راۓ کے بر خلاف حالیہ دور کے کچھ محققین کا خیال ہے کہ کتاب الہند لکھنے کے لیے البیرونی نے پورے ہندوستان کا سفر نہیں کیا بلکہ جس طرح البیرونی کو محمود اپنے دربار میں بخارا سے لایا تھا اسی طرح اس کے دربار میں بہت سے ہندوستانی علم بھی موجود تھے جو اپنے فلسفے اور علوم کے ماہر تھے اور یہی البیرونی کی معلومات کا ذریعہ بنے

پنجاب کے شہر پنڈدادن خان میں

البیرونی کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے تجرباتی طریقہ سے زمین کا ریڈیس معلوم کیا جو آج کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے معلوم کئے گئے ریڈیس سے قریب ترین ہے اس مقصد کے لیے البیرونی نے اپنے وقت کے رایج طریقوں سے یکسر ہٹ کر ٹریگنومیٹری کے اصولوں کے مطابق ایک بلکل انوکھا طریقہ وضع کیا جس میں آپ نے پہاڑی کی اونچائی اور افق سے بننے والے زائرین کو استعمال کیا یہ سارا تجربہ آپ نے ہمارے پنجاب کے شہر پنڈدادن خان میں نندانہ کے علاقہ میں کیا آپ کی کتاب تحدید النہآیا متھیمٹیکل جیوگرافی میں ایک شاہکار کتاب ہے جس میں آپ نے مختلف شہروں کےدرمیانی فاصلے پر زمین پر ان کے کوآرڈینیٹس نکالنے کے اصول قائم کیے

کعبہ کی سمت معلوم کرنے کے مسئلہ کا پریکٹیکل حل

اس کتاب میں آپ نے ٹریگنومیٹری کے اصولوں پر مکّہ کی سمت بھی نکالی اور یوں مسلمانوں کے ہاں نماز کے لیے کعبہ کی سمت معلوم کرنے کے مسئلہ کا پریکٹیکل حل پیش کیا اس کے علاوہ آپ نے پہاڑوں کے بننے کے عمل اور فوسلز پر بھی تحقیق کی عظیم یونانی ماہر فلکیات بطلمیوس جسے ٹولمی بھی کہا جاتا ہے علم فلکیات کے بانیوں میں سے تصور کیے جاتے کیے جاتے ہیں ان کی کتاب المجیسٹ ایسٹرونومی کے مضمون پر ا م ا لکتب کی حیثیت رکھتی ہے ٹولمی نے دوسری صدی میں جیوسنٹرز کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق سورج اور دیگر اجرام فلکی زمین کے گرد گھومتے ہیں اور زمین ساکن رہتی ہے اس کے برعکس زمین سمیت تمام اجرام فلکی کے سورج کے گرد گردش کے نظریئے کو ہلیوسنٹرِزم کہتے ہیں اور یہ سولہویں صدی میں پیش کیا گیا البیرونی نے اپنی تحقیق میں یہ محسوس کیا کہ ٹولمی کی تحقیق میں بعض اوقات اس نے ایسی ویلیوز کو استعمال ہی نہیں کیا جو اس کی تحقیق کے خلاف جاتی تھی اور صرف وہی ویلیو استعمال کیں جو اس کے نقطہ نظر کو مضبوط کرتی تھی البیرونی نے جو سینٹریز م کو یکسر رد تو نہیں کیا مگر ٹولمی جن مشاہدات کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ تمام مشاہدے حتمی ثبوت نہیں تھے بلکہ انہیں مشاہدات سے یہ ہلیوسنٹرزم بھی ثابت کیا جاسکتا تھا اور ہے البیرونی کی وفات 1050 میں غزنوی سلطنت میں ہوئی اور اپ کی آخری آرام گاہ موجودہ افغانستان کے شہر غزنی میں ہی ہے.

1 COMMENT