سیلابی صورتحال اور ہم پاکستانی

نبی آخر زماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لیے جو دعا مانگی ان میں شامل دعا یہ بھی تھی کہ الہی امت مسلمہ، امت رسول پہ عذاب نازل نہ کرنا آج ہم جن بھی قدرتی، معاشی ۔ معاشرتی، ذاتی،گھریلو یا ملکی  مسائل ہوں، ہماری نادانیوں اور بیوقوفیوں کے نتائج ہی  ہیں۔کہنے کو ہم آزاد قوم ہیں اور اس جملے پہ کہیں نہ کہیں ہم اتراتے بھی ہیں ۔

لیکن افسوس کے آج ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ذہنی طور پر ہم آج بھی صدیوں پہلے والے سفید چمڑی والوں کے غلام ہیں ۔آج بھی ہم عقل کی بجاۓ نقل سے کام لیتے ہیں ۔تعلیمی اسناد کا ڈھیر لیے ہم بھاگتے ہوؤں کے پیچھے بھاگتے جا رہے ہیں بغیر یہ جانے کہ ان کی منزل کیا ہے یا ہماری

منزل کیا ہے ۔اور یہ ریس نہ ختم ہونے والی ریس ہے۔نہ جانے کبھی کوئ نتیجہ نکلے بھی یا نہ نکلے ۔ہم آج باطنی و ذہنی طور بالکل کھوکھلے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بیشتر حصہ آج سیلاب نامی قدرتی آفت سے دوچار ہے ۔کیا ہم واقع ہی اس قابل ہیں کہ اک دوسرے کو بتلا سکیں یا یہ کہہ سکے کے جو ڈوب رہے (معافی اللہ)وہ گناہوں کی زد میں آۓ ہیں۔گریبان میں جھانکے اگر یہی حقیقت ہے تو پھر میں اور آپ کیوں محفوظ ہیں۔افسوس! در افسوساگر ہم آج اس قابل نہیں ہیں کے عملی طور پر ان کی مدد کر سکیں تو یاد رکھیئے ہم اس قابل بھی نہیں کہ دوسروں کے اعمال کو حساب کتاب کے ترازو میں تول سکیں ۔جب خدائی کاموں کو ہم اپنے ہاتھوں میں لینے کی تغ و دو میں لگے رہیں گے تو نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔مشکل وقت ہر فرد و قوم پہ آتا ہے۔

آزمائش میں وہی افراد اور قومیں پورا اترتی ہیں جو کامل یقین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاتے ہوۓ ،ذات پات کی تفریق کے بغیر اک دوسرے کی مدد میں مشغول ہوں۔امید ہے ہم بھی ایسی قوم بنے گے ان شا اللہ۔کند ذہہن لوگ ہی ہمیشہ مشکل وقت میں یا آزمائش کی گھڑی میں اپنی کوتاہیوں کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پہ ہی ڈالتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے آج ہم سیاسی پارٹیوں پے ڈال رہے۔کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے ملک کے سیاسی لیڈر صحیح ڈگر پر چل رہے ہرگز نہی حقوق و فرائض کا پلزا ہمیشہ برابری   کی سطح پر ہی بہترین نتائج کا ضامن ہوتا ہے ۔الیکشن کے وقت اگر ووٹ ڈالنا قومی فرائض میں شامل ہے تو کہاں ہیں ہمارے وہ حقوق جو بحثیت قوم کبھی ادا کیے گے ہوں اس ووٹ کے بدلے کبھی بھی نہیں ۔۔۔

لمحہ فکریہ ہے ہم کس لحج پہ پہنچ چکے ۔ہم سیلابی ریلوں میں ڈوبتے سامان کی مانند نہ جانے کب بہہ جائیں یا کنارے لگ جا ۓ۔آج اس ملک کو پھر کسی قائد و اقبال کی ضرورت ہے نہ کے احساسات سے کھیلتے ہوۓ ان وقتی لیڈر نما باشندوں کی ۔رب ذوالجلال ہم کو عقل و شعور عطا فرماۓ۔

(آمین)آمنہ رحیم