کورونا ویکسین میں بڑے پیمانے پر جعلسازی اور کرپشن کاانکشاف

کورونا ویکسین میں بڑے پیمانے پر جعلسازی اور کرپشن کاانکشاف۔
معصوم پاکستانی عوام کی جان کیساتھ اپنی کرپشن اور چندپیسوں کے عوض خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔


کورونا ویکسینیشن سینٹر مینار پاکستان لاہور سے دل دہلا دینے والے انکشافات۔
نمائندہ پردہ چاک کوموصول ہونیوالے چشمدید گواہوں کے مطابق ویکسین لگوانے والے افراد جو کہ مکلمل طریقہ کار (حکومت پاکستان اور این ڈی ایم اے کی جانب سے متیعن ہے) پر عمل درامد کے بعد ویکسینیشن سینٹر اپنی باری پر جاتے ہیں ان کو بیحد مہارت اور ہاتھ کی صفائی سے ویکسینیشن سینٹر کے عملہ کی جانب سے بیوقف بنا کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔


ایک ایسے ہی چشمدید گواہ جن سے ہماری بات ہوئی اور ان کابیان قلمبند کیا گیا کے مطابق جب وہ اپنی والدہ کو ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانے گئے تو ویکسینیشن سینٹر کے عملہ کی جانب سے بیحد مہارت کے ساتھ دوا کی مقدار کو انجیکشن میں بھر کر انجیکشن کی سوئی کو بازو میں لگا کر دوا جسم میں داخل کئے بغیر ہی سوئی کو باہر نکال لیا گیا اور ایک بند ڈبہ جس کے دہانے پر ایک سراخ تھا اور گتے سے بنا تھا، میں پھینک دیاگیا۔ اور جب صارف نے یہ تمام مشکوک کاروائی دیکھ کر متعلقہ ویکسین عملہ سے ڈبہ کھولنے کا مطالبہ کیا تو ڈبہ کھولنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا آخر کار جب صارف کے نا ماننے اور بار بار اصرار پر ڈبہ کھولا گیا تو شک یقین میں بدل گیا ڈبے میں وہی بھرا ہوا انجیکشن موجود تھا۔


یہ تمام کاروائی اور جعلسازی کا پردہ چاک ہو جانے کے بعد ویکسین عملہ کی جانب سے معافی تلافی اور دوبارہ ڈوز لگوا کر صارف کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ دوا کی مکمل مقدار جسم میں داخل ہوئی ہے۔


اب ایک سادہ لوح انسان کے زہن میں یہ بات دستک دیتی ہے کہ آخر انجیکشن کو خالی نا کرنے اور دوا سمیت ہی پھینک دینے میں ویکسین عملہ کا کیا مفاد چھپا ہو سکتا ہے؟

تواس سادہ سے سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہی دوا جو حکومت پاکستان کی جانب سے عام عوام کو بلا تفریق بغیر کسی معاوضہ کے عوض کورونا وائرس جیسی جان لیوا وبا سے بچانے کیلئے دی جا رہی ہے، سرکاری عملہ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہی انجیکشن جو صارف کی آنکھ میں دھول جھونک کر بند ڈبے میں پھینک دیا جاتا ہے، کو مہنگے داموں پرائیویٹ فارمیسیوں اور اور ان صارفین جو کہ وقت کی کمی کے باعث قیمت کی پرواہ کئے بغیر ویکسین خرید کر لگوا لیتے ہیں کو 15000 سے 18000 پزار روپے میں دوبارہ انہیں شیشیوں میں بھر کر فروخت کر دی جاتی ہے۔

قارعین کی آسانی کیلئے یہ بات بتاتے چلیں کہ ویکسین ایک سیل شدہ شیشی میں سرکاری عملہ کے حوالے کی جاتی ہے جس کا تمام رکارڈ رجسٹرڈ شدہ درخواستوں کے مطابق رکھا جاتا ہے۔ اس شیشی سے دوا کو انجیکشن میں بھرنے کا واحد طریقہ کار یہی ہے کہ اس کے دہانے پرموجود ربڑ کی سیل میں انجیکشن کی سوئی کی مدد سے چھید کر لیا جائے اور دوا کو سرنج میں بھر لیا جائے۔ اب ستم ظریفی یہ کہ اس دوا کو انجیکشن میں صارف کے سامنے بھرا تو جاتا ہے مگر جسم میں داخل نہیں کیا جاتا محض سوئی جسم کو لگنے کا جھانسہ دے کر بغیر دوا جسم میں داخل کئے باہر نکال کر ڈبہ میں پھینک دیا جا تا ہے اور بعد ازاں اسی طرح واپس شیشی میں سوئی کی مدد سے داخل کر دیا جاتا ہے۔

اس چند پیسوں کی حرام خوری کے عوض عام عوام کی جان کےساتھ جس قدر خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے اثرات کا تصور بھی روح کو لرزا دینے کیلئے کافی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ عناصر کھلے عام اپنا دھندہ چمکا رہے ہیں اور ان پر کسی کی نظر ہے اور نا ہی کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ممکنہ طور پر اس مکروع دھندے کا شکار کس قدر کثیر تعداد میں لوگ بن چکے ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔

اس پر مزید خوفناک بات یہ کہ وہ تمام اعداد و شمار جن کے مطابق ایک کثیر تعداد کو ویکسین کی ڈوز دی جا چکی ہےمشکوک ہو جاتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس خوفناک انکشاف پر حکومتی مشینری ضرور حرکت میں آئے گی اور اس جان لیوا اور مکروع دھندہ کو بند کروا کر زمہ داروں کو قرار واقع سزا دی جائے گی۔