اپوزیشن جماعتوں (پی-ڈی-ایم) کا حکومت کے خلاف اتحاد اورآئ-ایس-پی-آر کا بیان

اپوزیشن جماعتوں (پی-ڈی-ایم) کا حکومت کے خلاف اتحاد اورآئ-ایس-پی-آر کا بیان
Photo: Radio Pakistan

پاکستان کے سیاسی حالات شدید عدم استحکام کا شکار ہیں۔ جب سے پانامہ کے سکینڈل کا طوق سیاستدانوں کے گلے پڑا وہ جمہوری سیاست کو بھول کر اپنی 35 سالہ کی گئی کرپشن کو ہضم کرکے اپنی کھوئی ھوئی ساکھ اور لوٹی ھوئی ملکی دولت کو بچانے اور احتسابی عمل کے جال کو توڑ کر باحفاظت نکلنے کی کوشش کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

انکے ایسے اقدامات سے عوام اور ملک کا جتنا نقصان ھو رھا ھے اسکا تخمینہ لگانا ناممکن ھے۔ بلاشبہ عمران خان عرصہ دراز سے مہنگائی اور غربت سے پسی ھوئی عوام کو اس دلدل سے نکالنے کی جدوجہد میں مصروف ھے اور کرپٹ سیاستدانوں کے احتسابی عمل کو بھی جاری رکھے ھوئے ھے۔ اس میں کسی شبے کی گنجائش نہیں کہ موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں بلکہ عرصہ دراز سے وسائل پر قابض نااھل حکمران ھی ہیں جنہوں نے ملک کو لوٹ کر اپنی بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں۔

دوسرے ممالک کے اقامے لیکر منی لانڈرنگ جیسے گھنائونے جرائم کئے اور ساتھ اپنے چیلے چانٹوں کو بھی اپنی وفاداری اور اطاعت کیلئے بہتی گنگا میں ھاتھ دھلوا کر ملکی معیشت کا جنازہ نکال نکالا۔ ملک کو بیرونی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اپنی جائیدادوں کو فروغ اور ملک معاشی نظام کا بیڑہ غرق کیا۔ اقتدار کے مزے لوٹے عوام کو شعبدہ بازی کے ذریعے خودساختہ معاشی ترقی کا خواب دکھا کر صحیح اعداد و شمار سے دور رکھا۔

روپے کی قدر کو ڈالر کی نسبت جعل سازی سے عوام کے سامنے معاشی ترقی کا ڈھول پیٹتا۔ ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب دکھاتے رھے۔ اہم بات جو میں عوام کے سامنے رکھنا چاھتا ھوں وہ یہ کہ ان کرپٹ 2 سیاسی پارٹیوں کو عمران خان کے 126 دن کے طویل دھرنے سے بہت پہلے ھی یہ علم ھو گیا تھا کہ انکے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اقتدار ان کے ھاتھوں سے نکل جائے گا چناچہ آنے والی نئی حکومت کیلئے ایسے معاشی مسائل پیدا کر دئیے گۓ کہ وہ چند ماہ بھی اس بحران کا مقابلہ نہ کر پائے اور دیوالیہ ھو کر زمیں بوس ھو جائے گی۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کے دئیے گئے تبدیلی جیسے منشور کو عوام میں بہت پذیرائی حاصل تھی اور یقین تھا کہ آنے والی حکومت پی ٹی آئی کی ھو گی۔ عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے ملکی معیشت کی بدحالی کا قطعا اندازہ نہ تھا کہ یہ آئی سی یو میں ھے اسکو سٹیرائیڈ دے کر وقتی طور پر سہارا دیکر رکھا گیا ھے اور نہ ھی عمران خان کو ھیر پھیر کی سیاست کا تجربہ تھا جسکی وجہ سے اس نے اپنی الیکشن کمپین میں ھی عوام سے 100 دن میں معیشت کی تبدیلی اور اعلی کارکرگی کا وعدہ کر لیا۔ لیکن اقتدار میں قدم رکھ کر اندازہ ھوا کہ حقائق بہت گھمبیر اور الجھے ھوئے تھے کہ 100 دن تو کیا ایسی معیشت کو صحیح سمت کی طرف لیجانے کیلئے بہت وقت درکار ھے۔

ظاہر ھے بیرونی قرضوں کی اقساط اور مذید قرضوں سے اجتناب کرنا حکومت وقت کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ ماضی کے نااھل بدکردار سیاستدانوں کا عمران خان کی حکومت کے خلاف بنے ھوئے جال کا اثر تو ھونا ھی تھا جس کی وجہ سے روپیہ واپس اپنی اصلی شکل میں پلٹا اور ڈالر نے اونچی اڑان بھر کر غریب عوام کیلئے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔

اسی وقت کا انتظار ان ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کو تھا کہ وہ حکومت کی ناکامی اور غریب دشمنی کا شور مچا کر ملک میں افراتفری پھیلائیں۔عمران خان کی حکومت کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ عمران خان نے عوام کو سیاسی شعور دیا اور کرپٹ سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھا کر انکو دنیا بھر میں ایکسپوز کرکے انکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ھے۔

عوام ماضی کے حکمرانوں کے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں اور مہنگائی اور بیروزگاری جیسے بحران کا شکار ہیں لیکن اب یہ بھی نہیں چاھتے کہ ماضی کے کرپٹ سیاستدان دوبارہ ان پر مسلط ھو کر دوبارہ ملکی وسائل کو لوٹیں۔ ایک طرف عمران خان عوام کو مسائل سے نکالنے کیلئے سرگرم عمل ھے اور دوسری طرف تمام اپوزیشن جماعتیں جو کل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں اپنی کرپشن کے احتساب سے بچنے اور عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے ایک ھو چکے ہیں۔

پہلے دو بڑی جماعتیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح ملکی سلامتی کے اداروں کو اندرونی و بیرونی معاملات میں الجھا کر اپنے مقاصد میں کامیاب ھو جائیں اور ان حربوں سے دال نہ گلی تو تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر پاکستان ڈیموکرٹک موومنٹ کا الائنز بنا کر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تمام صوبوں میں حکومت اور فوج اور ملکی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ اچھالنے کیلئے جلسے کئے عوام کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی لیکن الحمدللہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تو ایسے ایسے بیہودہ بیانات اداروں کے خلاف دیتے رھتے ہیں کہ لگتا ھے اقتدار چھن جانے سے انکی دماغی صحت مشکوک ھو گئی ھے۔ مولانا کے حالیہ بیان پر جو انہوں نے فوج کے خلاف دیا کے جواب میں مجبورا ترجمان پاک فوج نے بہت خوبصورت اور معنی خیز بیان جاری کرکے مولانا کی اور ان کے حواریوں کی بولتی بند کر دی ھے۔

انہوں نے مولانا کے جواب میں کہا “پی-ڈی-ایم کی راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نہیں۔ راولپنڈی آنے والوں کو چائے پانی پلائیں گے” اب دیکھنا یہ ھے کہ اس بیان کے بعد مولانا اور انکے حواری ڈی جی آئ-ایس-پی-آر کی دعوت قبول کرکے راولپنڈی چائے پینے جاتے ہیں یا مزید اس سے بھی بڑی دعوت کے منتظر ہیں۔ میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ھوں کہ اپوزیشن چاھے جتنے بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے حکومت اور اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر لے نا ھی 9 من تیل ھو گا اور نا ھی رادھا ناچے گی۔

ویسے بھی پی-ڈی-ایم کے اتحاد میں بری طرح دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ مولانا اکیلے ھی حکومت اور فوج کے خلاف بغلیں بجا کر بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں جس کا جواب ترجمان فوج چائے کی دعوت دے چکی ھے۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ پی-ڈی-ایم سیاسی میدان میں اور مزید کتنا گند ڈالتی ھے؟ اپنی بھونڈی اور جھوٹی سیاست سے ملکی سلامتی کو کہاں تک دائو پر لگاتی ھے؟ حکومت اور ادارے کب تک انکے خلاف خاموش رہتے ہیں۔ حالانکہ ایسے سیاستدانوں کو نااھل قرار دیکر ان کے سیاسی پلیٹ فارم کی صف کو لپیٹ کر ملک کو تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے غریب عوام کیلئے پرامن خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں۔